Home / تحریک عدم اعتمادناکام تواعتمادکاووٹ شمارہوگا:چیف جسٹس

تحریک عدم اعتمادناکام تواعتمادکاووٹ شمارہوگا:چیف جسٹس

SC open at 12am

ویب ڈیسک ۔۔ آرٹیکل63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس اورسپریم کورٹ بار کونسل کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیےکہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوتی تو اعتماد کا ووٹ کاؤنٹ ہوگا۔

دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سےپوچھا کہ آپ کو لگتا ہے کہ آرٹیکل 63اے میں کسی قسم کی کمی ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 63 اے کو اکیلا نہیں پڑھا جاسکتا، پارٹی ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے جماعتوں کے ارکان ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں، کوئی پارٹی کے ساتھ نہیں چل سکتا تو مستعفی ہوسکتا ہے، پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والا تاحیات نااہل ہونا چاہیے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیےکہ آرٹیکل 63 اے کو 62 ون ایف کےساتھ کیسے جوڑیں گے، کیا کسی فورم پر رشوت لینا ثابت کیا جانا ضروری نہیں؟رشوت لیناثابت ہونے پر62 ون ایف لگ سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی قانونی طور پر بددیانتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کو تبدیل کیا، آرٹیکل 63 اے میں پانچ سال تین سال یا وقتی نا اہلی ہو سکتی ہے؟قانونی بدیانتی پر تاحیات نا اہلی مانگ رہے ہیں؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تاحیات نااہلی کی آئینی شق اور آرٹیکل 63 دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، تاحیات نا اہلی کاغذات نامزدگی میں جھوٹے حقائق اور بیان سے متعلق ہے، منحرف رکن کے خلاف کارروائی الیکشن ہوجانے کے بعد کا معاملہ ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ منحرف رکن کے خلاف کارروائی کے لیے الیکشن کمیشن موجود ہے، سب کچھ واضح ہے ہمارے پاس کیا لینے آئے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ پارٹی فیصلے کے خلاف ووٹ دینے والا رکن ڈی سیٹ ہوجائے گا؟

جسٹس مظہر عالم نے دریافت کیا کہ نااہلی کی میعاد کتنی ہے یہ حکومت کیسے تعین کرے گی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسی لیے سپریم کورٹ آئے ہیں۔

سپریم کورٹ کا وزیراعظم کے ججز سے متعلق بیان پر اظہارِ تشویش

دورانِ سماعت سپریم کورٹ نے وزیراعظم کی کمالیہ میں کی گئی تقریر پر تشویش کا اظہار کیا۔

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ آج اسمبلی اجلاس ہے بعض اوقات ہمارے سوالات پر بات ہوتی ہے، وزیر اعظم نے کمالیہ جلسے میں کہا کہ کوئی ججز کو اپنے ساتھ ملا رہا ہے، یہ کس طرح کے بیانات دیے جا رہے ہیں، اخبارات میں کیسے کیسے بیانات چھپ رہے ہیں۔

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ اگر وزیراعظم کو ملک کے سب سے بڑے آئینی ادارے عدلیہ پر اعتماد نہیں تو پھر کیا ہو گا۔

تاہم چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے باہر کیا ہو رہا ہے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہی۔

کم اکثریت پروزیراعظم کیاکرینگے؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر 15 سے 20 اراکین ڈی سیٹ ہو جاتے تو وزیراعظم پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ کیسے لیں گے؟ کیا کم اکثریت پر بھی وزیراعظم برقرار رہ سکتے ہیں؟۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس صورت میں صدرمملکت وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ منحرف اراکین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ اگر تمام سیاسی جماعتوں کا نہیں تو معاملہ پارلیمنٹ سے حل کروائیں۔

جسٹس مظہر عالم کا کہنا تھا کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح بالکل واضح ہے، کیا آپ نہیں سمجھتے کی صدارتی ریفرنس میں اٹھائے گئے سوال پر تشریح کی ضرورت نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی تک تو سب ہی ہوا میں گھڑے دوڑا رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ سیاست دانوں کو مختلف اوقات میں مواقع ملے انہوں نے منحرف اراکین کی نااہلی کا تعین کیوں نہیں کیا، 1997 میں تو سیاستدانوں کے پاس واضح اکثریت تھی، نااہلی کی مدت کا تعین اس وقت کیوں نہیں کیا گیا، جمہوریت ہمارے ملک کے آئین کا اہم۔ جز ہے، پارلیمان سپریم ہے، یہ انتہائی دلچسپ کیس ہے۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ منگل تک اپنے دلائل مکمل کرنے کی کوشش کریں۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ صدارتی ریفرنس کی سماعت کر رہا ہے۔ بینچ میں جسٹس منیب اختر،جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہیں۔

یہ بھی چیک کریں

Ali Amin Gandapur and Faisal Kundi cold war

گورنراوروزیراعلیٰ میں شدیدلفظی جنگ

مانیٹرنگ ڈیسک ۔۔ گورنرخیبرپختونخوافیصل کریم کنڈی اوروزیراعلیٰ علی امین گنڈاپورکےدرمیان لفظی جنگ میں شدت آگئی …