مانیٹرنگ ڈیسک ۔۔ پاکستانی ڈراموں میں دکھائی جانےوالی کہانیوں کےمعیارپردیکھنےوالوں نےتوبہت آوازبلندکی ہےلیکن اب خودڈراموں کےاندرسےہی ناظرین کودکھائےجانےوالےغیرمعیاری کانٹینٹ پراحتجاج سامنےآگیاہے۔بہت سےلوگ تویہ الزام بھی لگاچکےہیں کہ مختلف اینٹرٹیمنٹ چینلزاورپروڈکشن ہاوسزنےاپنی اپنی کانٹینٹ ٹیمیں بنارکھی ہیں جونئےاورمعیاری موضوعات پرطبع آزمائی کرنےکی بجائےوہی گھسےپٹےموضوعات کوتھوڑےبہت ردوبدل کےبعدنئی شکل دےدیتےہیں تاکہ ریٹنگ حاصل کی جاسکے۔
حال ہی میں دنیانیوزکےپروگرام مذاق رات میں بطورمہمان شرکت کرنےوالےسینئراداکارمحمداحمد نےڈراموں میں دکھائےجانےوالےانتہائی گھسےپٹےاورغیرمعیاری موضوعات پرکھل کربات کرتےہوئےکہاکہ ڈراموں کی کہانیوں کےمعیارکاآپ یہیں سےاندازہ لگالیں کہ گزشتہ کچھ سالوں سےانہیں ہرڈرامےکی ساتویں آٹھویں قسط میں ماردیاجاتاہے۔ انہوں نےبتایاکہ چینلزنےاپنی اپنی کانٹینٹ ٹیمیں رکھی ہوئی ہیں جونئی ریسرچ کرنےکی بجائےمکھی پرمکھی مارنےکوزیادہ ترجیح دیتی ہیں تاکہ ریٹنگ حاصل کی جاسکے۔
انہوں نےکہاایک ہی جیسےکردارکرتےکرتےوہ خودان کےعادی ہوگئےتھے۔ پہلےتوانہیں ہرقسط میں روناہوتاتھااورپھرکچھ قسطوں کےبعدانہیں ماردیاجاتاتھا۔ اس طرح کوئی چھ سال تومیں ڈراموں میں مرتاہی رہا۔ محمداحمدکاکہناتھاکہ اگرآپ اپنی سمجھ کےمطابق کچھ لکھ کرڈرامےبنانےوالوں کودکھائیں تووہ کہیں گےکہ یہ توکسی کوسمجھ ہی نہیں آنا۔اس لئےآپ وہی لکھیں گےجولکھنےکیلئےکہاجائےگا۔ ڈرامہ بنانےوالوں کےنزدیک ایک رائٹرکی اپنی کوئی سوچ نہیں ہوتی۔
ان کامزیدکہناتھاکہ اگرآپ رائٹرہیں اورآپ کی اپنی سوچ ہےتوآپ کو لکھنا نہیں چاہیے، کیونکہ آپ کی اپنی سوچ سے لکھاہوااسکرپٹ ردکردیاجائےگا۔ محمد احمد کےمطابق ہمیں منشی ہونا چاہیے اور ہر بات پر ہاں کہنے کی عادت ہونی چاہیے،کیونکہ اسی طرح ہم اچھے لکھاری بن سکتے ہیں۔
طلاق اوردوسری شادی — بشریٰ انصاری کےانکشافات
اداکارکےمطابق ایک بارانہیں ایک ریٹنگ چارٹ دکھایاگیاجس میں انہیں بتایاگیاکہ یہ دیکھیں جس قسط تک بہوساس سےمارکھارہی تھی اس وقت تک ریٹنگ بہت زیادہ تھی اورجس قسط میں بہونےساس کاہاتھ روکااس قسط سےریٹنگ نیچےآگری۔ انہوں نےکہاکہ ہماری عوام کوبھی ایک ہی طرح کےڈرامےدیکھےکی لت لگ گئی ہے۔ جب بھی کسی ڈرامےمیں خودمختاراورمضبوط عورت دکھائی جاتی ہےلوگ چینل تبدیل کرلیتےہیں۔ محمداحمدنےکہا کہ جس طرح نشے کی عادت پڑجائے تو اس سے چھٹکارا مشکل ہوتا ہے،اسی طرح ناظرین کو بھی یہی لت پڑگئی ہے۔
انہوں نےکہاکہ بحیثیت قوم ہمیں رونےکی عادت پڑگئی ہے،ہم ٹریجیڈی کوپسندکرتےہیں۔ اسی لئےڈرامےبھی اسی طرح کےلکھےجارہےہیں۔ اس قوم کوہنسانابہت مشکل لیکن رلانابہت آسان ہے۔