ویب ڈیسک ۔۔ دھوکہ دہی کےبڑھتےواقعات اورمقامی افرادکےاستحصال کےبعدکینیڈین حکومت نےملک میں عارضی طورپرمقیم غیرملکی ورکرز کےداخلےکی حوصلہ شکنی کافیصلہ کیاہے۔
رہائش کےمسائل کاسامناکرنےوالےکینیڈامیں اب اس قانون کوسخت کرنےکافیصلہ کیاگیاہےجس کےتحت کاروباری اداروں کوعارضی طورپرغیرملکی ورکرزکوکام پررکھنےکی اجازت تھی ۔ یہ پروگرام ملک میں لیبرکی قلت پرقابوپانےکیلئےشروع کیاگیاتھا۔
وزیرروزگاررینڈی بوسونالٹ نے کاروباری نمائندوں سے ملاقات میں انہیں خاص طورپر”ہائی رسک” صنعتوں میں سخت نگرانی کی یقین دہانی کرائی ۔ انہوں نے بعض شعبوں میں مکمل طورپرکم اجرت والے عہدوں کے لیے پروگرام استعمال کرنے پرپابندی لگانے کےامکان کااشارہ بھی دیا۔
اگرچہ یہ پروگرام تارکین وطن کی بہتری کیلئےشروع کیاگیالیکن پھربےروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح سمیت متعددوجوہات کی بناپراس پرتنقیدشروع ہوگئی ۔
امیگریشن کے وزیر مارک ملر نے اس سال کے شروع میں ہی غیر ملکی لیبرپروگرام کے لیے قوانین کو سخت کرنا شروع کردیاتھاجس میں طلبہ سمیت عارضی رہائشیوں کی تعداد پرمجموعی حد مقرر کرنے جیسےاقدامات پرزوردیاگیا۔
واضح رہےکہ آسٹریلیا اوربرطانیہ کی طرح کینیڈا کی حکومت نے بھی تارکین وطن کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اقدامات پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے اور طلبہ سمیت نئے آنے والوں کو ملک میں آنے سے روکاہے۔
جنوری میں حکومت نے بین الاقوامی طلباء پر دو سال کی حد کا اعلان کیا۔ مارچ میں، امیگریشن کے وزیر نے عارضی امیگریشن پر کینیڈا کی پہلی حد متعارف کرائی، جس کا مقصد عارضی رہائشیوں کے داخلے کو کم کرنا تھا۔
کینیڈا طویل عرصے سے نئے آنے والوں اور تارکین وطن سےمتعلق خوش آئند موقف کے لیے جانا جاتا ہے، موجودہ لبرل حکومت نےکوروناکے بعد مزدوروں کی قلت کو دور کرنے کے لیے نئے رہائشیوں، خاص طور پر عارضی لوگوں کی آمد میں نمایاں اضافہ کیاہے۔ لیکن لگتاہےکہ اب کینیڈاکےتارکین وطن کوخوش آمدیدکہنےکےموقف میں تبدیلی آنےوالی ہے۔