ویب ڈیسک ۔۔ جامع اقتصادی اصلاحات کی حکمت عملی نئی مخلوط حکومت کےایجنڈے میں سرفہرست ہونی چاہیے۔
معروف ماہراقتصادیات ڈاکٹرحفیظ شیخ نےان خیالات کااظہارسسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کےزیراہتمام "پاکستان کی فوری اقتصادی ترجیحات”کےموضوع پرکانفرنس سےخطاب کرتےہوئےکیا۔
ڈاکٹرپاشاکےمطابق پہلی بارہمارےملک میں اتنی وسیع البنیاد قومی اتفاق رائے والی حکومت بنی ہے۔ معیشت کو درست کرنے اور ٹیکس کے نظام کو معقول بنانے کایہ سنہری موقع ہے۔
ڈاکٹر پاشا نےبتایاکہ رواں مالی سال کے پہلے آٹھ مہینوں میں پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 12 ارب ڈالرتک پہنچ گیا ہےاور 30 جون 2022 تک 19 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ دنیاکےساتھ لین دین کانظام چلانےکیلئےہرسال 30 سے 32 بلین ڈالرکی فنانسنگ کی ضرورت ہوگی۔
پاکستان رواں مالی سال کے پہلےنومہینوں میں 18 بلین ڈالرکی فنانسنگ کا بندوبست کرنےمیں کامیاب رہا ہے، جب کہ باقی تین مہینوں میں 15 سے16 بلین ڈالرکاانتظام کرنا پڑےگا۔ ڈاکٹرپاشاکےمطابق رواں سال مارچ میں زرمبادلہ کےذخائرمیں پانچ ارب ڈالرکی کمی نےمعاشی پریشانیوں میں مزیداضافہ کیا۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں یہ یقینی بنانا چاہیے کہ وہ جامع اصلاحاتی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ ریلیف پیکج کو ہدف بنایا جائے جبکہ گھی، چینی، مصالحہ جات، سبزیوں اور چائے سمیت بنیادی اشیائے خوردونوش پر عائد تمام بالواسطہ ٹیکسز کو واپس لیا جائے۔
ایس ڈی پی آئی کےایگزیکٹوڈائریکٹرعابدقیوم سلہری کاکہناتھاکہ سیاسی عدم استحکام پاکستانی معیشت کیلئےخطرہ رہےگا۔ انہوں نےکہاکہ پاکستان کوجن معاشی مسائل کاسامنا ہے، خاص طورپربلندافراط زروغیرہ، وہ عالمی منظر نامےسےجڑےہوئےہیں۔
ماہراقتصادیات اشفاق تولہ نے پاکستان میں ٹیکس کے نظام کو ہموار کرنے کی ضرورت پرزوردیا۔کہاہمیں ٹیکس کےخراب نظام کو درست کرناہے۔ ماہرمعاشیات ڈاکٹرعالیہ ہاشمی کا خیال تھا کہ پاکستان کو ملکی مسائل کو ملکی مسائل کےبجائےعالمی تناظر میں دیکھناچاہیے