ویب ڈیسک ۔۔ تمام معاملات کوحل کرنےکیلئےخودکوفیصل آبادکاگھنٹہ گھرسمجھناکسی کی خواہش توہوسکتی ہے،لیکن یہ معاملےکاحل نہیں ۔
ان خیالات کااظہارجےیوآئی ف کےسربراہ مولانافضل الرحمان نےقومی اسمبلی میں اظہارخیال کرتےہوئےکیا ۔ انہوں نےکہا کہ سیاسی رہنماوں اورقیادتوں کوغیراہم سمجھنےسےزیادہ بڑی اورکوئی حماقت نہیں ہوسکتی ۔ جوجہاں معروف اورتجربہ کارہے،اسےوہاں سائیڈلائن کیاجارہاہے ۔ قائدین کی جگہ نوجوان سامنےآرہےہیں جن میں تجربےاوروژن کی کمی ہوتی ہےاوراسی وجہ سےمعاملات اکثراوقات اتنےالجھ جاتےہیں کہ سلجھانامشکل ہوجاتاہے ۔
مولانافضل الرحمان نےمطالبہ کیاکہ دہشت گردی کےخلاف طاقت کےاستعمال کی بجائےمعاملات سیاستدانوں کےسپردکئےجائیں ۔ ضرورت پڑنےپرملک کےچپےچپےکی حفاظت کریں گے ۔
جےیوآئی ف کےسربراہ کاکہناتھاکہ صورتحال اس حدتک خراب ہوچکی ہےکہ بہت سےعلاقوں میں سکول اورکالجوں میں قومی پرچم لہراسکتےہیں نہ ترانہ گاسکتےہیں ۔ الیکشن سےپہلےافغانستان گیااوروہاں سےکامیاب لوٹالیکن پھرمعاملات خراب ہوگئے ۔ ذمہ داریاں کسی اورپرڈالنےسےکام نہیں چلےگا۔
مولانانےکہاکہ جبری گمشدگیوں کامسئلہ حل ہوناچاہیے،لوگوں کوپتاچلناچاہیےکہ ان کےپیارےکہاں ہیں؟ میں چاہتاہوں کہ لوگ افواج پاکستان پراعتبارکریں ۔
مولانا فضل الرحمان نےکہااس صورتحال میں ہمیں قدم اٹھانا چاہیے، ہم لڑیں گے، تنقید کریں گے، اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے لیکن ملک کو ضرورت پڑی تو اپنا کردار بخوبی نبھائیں گے، پارلیمان، سیاسی جماعتوں اور قائدین کو ملک کے لیے غیر ضروری سمجھنے سے زیادہ بڑی حماقت کوئی نہیں۔
فضل الرحمان نے استفسارکیا کہ کیا حکومت کے پاس فیصلوں کا اختیار ہے؟ کیا ان کے پاس صلاحیت ہے فیصلہ کرنے کی یا اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر پارلیمان خود بات چیت کرے اور ملک کے اندر اضطراب کو ختم کرے؟ ہم پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ ہمارے مفادات کی جنگ نہیں، عالمی قوتیں اس کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔