مانیٹرنگ ڈیسک ۔۔ وفاقی حکومت نےسپریم کورٹ کےججزکی ریٹائرمنٹ کی عمر65سےبڑھاکر68سال کرنےکیلئےآئینی ترمیم کامسودہ فائنل کرلیااورحکومت ذرائع کےمطابق اس آئینی ترمیم کےمسودکےکوآج یعنی ہفتےکےروزہونےوالےقومی اسمبلی اورسینیٹ کےغیرمعمولی اجلاسوں میں پیش کئےجانےکاامکان ہے۔
اس خبرکےحوالےسےاپنےقارئین کوہم یہ بات سمجھاتےچلیں کہ عدالت عظمیٰ کےججزکی ریٹائرمنٹ کی عمر68برس کرنےسےسپریم کورٹ کےموجودہ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کوخودبخودمدت ملازمت میں توسیع مل جائےگی ۔ واضح رہےکہ نومبر2024میں ان کی مدت ملازمت مکمل ہونےجارہی ہےاورجسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےتاحال توسیع قبول کرنےکےحوالےسےکوئی حتمی اورواضح بیان نہیں دیا۔
واپس آئینی ترمیم کی طرف آتےہیں ۔ ہم سب کوپتاہےکہ عام قانون سازی کےبرعکس آئینی ترمیم کیلئےقومی اسمبلی میں موجودارکان کی دوتہائی اکثریت کی حمایت لازمی ہے۔
ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں کل ممبران کی تعداد 336 ہے،یعنی آئینی ترمیم کیلئے224 ممبرز کی حمایت کےبغیرکام نہیں بنےگا۔ حکومتی ارکان کی تعداد213 بنتی ہے جس میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی تعداد 111، پیپلز پارٹی کی 68، ایم کیو ایم کے 22، ق لیگ کے5، استحکام پاکستان پارٹی کے4، مسلم لیگ ضیا، نیشنل پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک، ایک رکن شامل ہے۔
میڈیاکوحکومتی ذرائع سےملنےوالی خبرکےمطابق مولانافضل الرحمان کی جماعت جےیوآئی ف نےبھی آئینی ترمیم کیلئےحکومت کی مشروط حمایت پرآمادگی ظاہرکی ہے۔ اس طرح اگرجےیوآئی کے8ارکان نےبھی حکومت کی حمایت کردی توآئینی ترمیم پاس کروانےکیلئےاسےمحض 3سے4لوگوں کی ضرورت پڑےگی ۔ یہاں واضح رہےکہ رحیم یارخان کاضمنی الیکشن بھی پیپلزپارٹی جیت چکی ہے۔ یعنی حکومت کوایک ووٹ اورمل گیا۔
آج نیوزکی خبرکےمطابق تحریک انصاف کچھ ارکان اورکچھ آزادممبران بھی آئینی ترمیم کوسپورٹ کریں گے۔ یعنی اگریہ سب ایسےہی ہواجیساکہ ہم نےرپورٹ کیاتوحکومت بہت آسانی سےاعلیٰ عدلیہ کےججزکی مدت ملازمت سےمتعلق آئینی ترمیم کوپاس کرالےگی ۔
اپنےپڑھنےوالوں کوہم یہ خبربھی دیتےچلیں کہ ہفتےکےروزانتہائی غیرمعمولی حالات میں ہی قومی اسمبلی اورسینیٹ کےاجلاس بلائےجاتےہیں ۔ تاہم یادرہےکہ یہ خبرپاکستان کےتمام بڑےمیڈیاہاوسزنےچلائی ، ان کی ویب سائٹ پربھی موجود ہےلیکن حکومت نےآفیشلی اس کی تصدیق ابھی تک نہیں کی ۔