ویب ڈیسک ۔۔ اسرائیلی حکومت کی شدیدمخالفت کےباوجودفلسطینیوں پرہونےوالےمظالم پرمبنی فلم فرح کانیٹ فلکس پرریلیزہوناکسی کارنامےسےکم نہیں۔
یہ فلم نوجوانی کی دہلیزپرقدم رکھتی ہوئی 14سالہ لڑکی فرح کی سچی سچی کہانی پر مبنی ہے۔فرحہ گاؤں کے میئر کی بیٹی ہے۔ آس پاس کے لوگ اسے ضدی قرار دیتے ہیں۔ فرح کوپڑھنےلکھنےکاشوق ہےاوروہ ریاضی، انگریزی، جغرافیہ اورتاریخ پڑھنےمیں دلچسپی رکھتی ہے۔
زندگی کی خوشیوں میں مگن معصوم فرح آنےوالےخطرےسےلاعلم ہے۔ فرح کی زندگی میں قیامت اس وقت ٹوٹتی ہےجب اس کےگاءوں پرصیہونی فوجی حملہ کردیتےہیں ۔ فرح کوبچانےکیلئےاس کےوالداسےجانوروں کےچارےوالےکمرےمیں بندکرکےجلدواپس آنےکاوعدہ کرکےچلےجاتےہیں۔
باقی فلم فرحہ کی اپنی آنکھوں کےذریعےہم دیکھتےہیں۔ 14سالہ بچی کواپنی زندگی میں وہ وہ کچھ دیکھناپڑتاہےجس کاتصورکرنابھی محال ہے۔ واضح رہےکہ فلم میں 1948کادوردکھایاگیاہے۔ ان سب حالات کےباوجودفرح شہرجاکرپڑھنےکےاپنےعزم پرقائم رہتی ہے۔
لیکن حالات مزید خراب ہوتے جاتے ہیں کیونکہ فرح اپنی آنکھوں کےسامنےصیہونی فوج کےظلم وبربریت کامظاہرہ دیکھتی ہے۔ فرح غاصب فوج کےغیرانسانی ظلم و ستم کواپنےاسی بندکمرےمیں چھپ کردیکھتی ہےجہاں اس کےباپ نےچھپادیاتھا۔
فلم میں فرح جوکرتی ہےوہ اس بات کی غمازی کرتاہےکہ فلسطینی نوجوان جوکچھ کررہےہیں وہ ایساکرنےپرمجبورہیں ۔ اس فلم میں ایکشن ہے ، سسپنس ہے بھرپورتھرل ہےاورسب سےبڑھ کروہ خواب ہیں ہرفلسطینی نوجوان دیکھتاہےلیکن ان سپنوں کےتعبیرمیں بدلنےسےپہلےہی کوئی نہ کوئی اسرائیلی گولی سپنےدیکھنےوالی ان آنکھوں کوہمیشہ کیلئےموت کی نیندسلادیتی ہے۔
جیسے جیسے فلم اختتام کو پہنچتی ہے، ہمیں احساس ہوتا ہے کہ فلسطین میں فرحہ جیسے لوگوں کے لیے زندگی کوئی خوشگواراحساس کانام نہیں بلکہ مصائب و آلام سےبھری ایک ایسی جدوجہدہےجس کابظاہرکوئی اختتام دکھائی نہیں دیتا۔