ویب ڈیسک ۔۔ ستاروں سےآگےجہاں اوربھی ہیں اورانہی جہانوں کاکھوج لگانےکیلئےدنیاکی پہلی اورطاقتورترین دوربین نےاپناکام شروع کردیاہے۔ امریکی خلائی ادارےناساکی مطابق”جیمزویب ٹیلی سکوپ”کائنات کےان گمنام گوشوں کوڈھونڈنےکی کوشش کرےگی جنہیں اس سےپہلےبھیجی گئی ہبل سپیس ٹیلی سکوپ بھی نہ دیکھ پائی۔
تقریباً 9 ارب ڈالرزکی خطیرلاگت سے بننے والی دوربین زمین سے پندرہ لاکھ کلومیٹر کی دوری پرسورج کے گرد چکر لگائے گی۔ امریکی خلائی ادارےناساکےمطابق سورج کی شعاوں سےبچاءوکیلئےاس ٹیلی سکوپ نےکامیابی سےاپنی پانچ تہوں والی سن شیلڈکوکھول لیاہےحالانکہ اس حوالےسےماہرین کوخدشہ تھاکہ شائددوربین اپنی سن شیلڈمکمل طورپرکھولنےمیں کامیاب نہ ہوسکے۔ سن شیلڈ کا سائزایک ٹینس کورٹ جتنا ہے۔
ناساکےدعوےکےمطابق یہ دوربین ماضی کی پرانی کہکشاؤں کو بھی ڈھونڈنکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے، دوربین کا مرکزی آئینہ 18 آئینوں کو آپس میں جوڑ کر بنایا گیا ہے، ساڑھے چھ میٹر قطر والے آئینے کے علاوہ دوربین میں حساس ترین کیمرے نصب ہیں۔ یہ ٹیلی سکوپ اب کائنات کی کہکہشاؤں کےگمنام رازوں سےپردہ اٹھانےاورخلا میں چمکتے ستاروں کی تصاویر حاصل کرنے کے اگلے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ جس میں دوربین کے آئینوں کو کھولا جائے گا۔
سائنسدان پرامیدہیں جیمز ویب ٹیلی سکوپ خلا میں ان ستاروں کو ڈھونڈ پائے گی جو ساڑھے 13 ارب سال پہلے کائنات میں سب سے پہلے روشن ہوئےتاہم ٹیلی سکوپ کو مکمل طور پر آپریشنل ہونے اور اس کی مدد سے پہلی تصاویر دیکھنے میں چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔
ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن کاکہناہےجیمزویب ٹیلی سکوپ ہمیں ہماری کائنات کے بارے زیادہ معلومات دے گی کہ ہم کون ہیں اور کیا ہیں؟
ناسا نے سات ٹن وزنی دوربین بنانے کے لیے کینیڈین اور یورپی سپیس ایجنسیز کے ساتھ شراکت داری کی تھی اور اس کی تیاری کے لیے 1990 کی دہائی سے 29 ممالک کے لوگ دن رات محنت کررہے تھے۔
اس سے قبل ’ہبل‘نامی خلائی دوربین بنائی گئی تھی جس نے کائنات کے بارے میں انسانوں کے علم میں بےپناہ اضافہ کیا تھا۔