خلیجی عرب ممالک آہستہ آہستہ تبدیل ہورہےہیں ۔ تبدیل ہوتی ہوئی اس ذہنیت کی طرف اشارہ اس بات سےملتاہےکہ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے معاہدے پر دستخط کردیےہیں۔
معاہدے کی تقریب امریکی صدارتی محل وائٹ ہاؤس میں ہوئی جس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو، اماراتی وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید النہیان اور بحرینی وزیر خارجہ خالد بن احمد الخلیفہ شریک ہوئے۔
اس موقع پرمیڈیا سے خطاب میں امریکی صدرنےدعویٰ کیاکہ مزیدپانچ ملک اسرائیل سےاپنےسفارتی تعلقات قائم کرینگےلیکن انہوں نےان ملکوں کےنام نہیں بتائے۔ وہ بولےکہ ہم یہاں تاریخ کا دھارا بدلنے کے لیے جمع ہوئے ہیں کیونکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک تنازعات اورجھگڑوں سے تنگ آچکے ہیں ، اس معاہدے کے بعد اماراتی اور بحرینی شہری مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے جاسکیں گے۔
معاہدے کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والی عرب ریاستوں کی تعداد 4 ہوگئی ہے، اس سے قبل 1979 میں مصر اور اردن 1994 میں اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کےخیال میں یہ دونوں معاہدے امریکی صدر کے لیے اہم سفارتی کامیابیاں ہیں اور آنے والے امریکی صدارتی انتخاب میں ان کے لیے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ واضح رہےکہ ٹرمپ کے سیاسی حامیوں میں سے ایک بڑا طبقہ اسرائیل کےحامی عیسائیوں کا ہے اور یہ ووٹرز 3نومبر کےالیکشن میں ٹرمپ کی کامیابی کے لیےانتہائی اہم تصورکیےجا رہےہیں۔
ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ بہت جلد دیگر عرب ممالک بھی اسرائیل سے تعلقات بحال کر لیں گے اور بالآخر فلسطین بھی اس عمل کا حصہ بن جائے گا اور اگر فلسطین اس عمل کا حصہ نہ بنا تو وہ اکیلا رہ جائے گا۔
ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل، امارات اور بحرین کی قربت دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ ان تینوں ملکوں کے ساتھ ساتھ امریکا کو بھی ایران کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور ان کے بیلسٹک میزائل کے منصوبے پر تحفظات ہیں۔
دوسری فلسطین کے عوام نے ان امن معاہدوں اور اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے اقدامات کو مسترد کردیا ہے اور ٹرمپ پر اسرائیل کی حد سے زیادہ حمایت اور فلسطین سےمتعصبانہ رویہ اختیار کرنے کا الزام عائد کیا۔
خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات نے 13 اگست اور بحرین نے 11 ستمبر کو اسرائیل سے امن معاہدے کا اعلان کیا تھا۔