دودھ پیتےبچےخودبچوں والےہوگئےلیکن پاکستان کی گاڑی ہےکہ اسی نازک موڑپرپیرجمائےکھڑی ہےکہ جس کےبارےمیں سنتےسنتےہمارےکان پک گئے۔
کبھی اس گاڑی کا ٹائرپنکچرہوجاتاہےتوکبھی کوئی شرارتی اس کی ہواخارج کردیتاہے۔ کبھی اس کاانجن سیزہوجاتاہےتوکبھی اس کی ٹینکی میں پٹرول نہیں ہوتااورآج کل توپٹرول ویسےبھی اتنامہنگاہوگیاہےکہ بندہ ڈلوانےسےپہلےسوبارسوچتاہے۔
جہاں تک اس گاڑی کےڈرائیورکی بات ہےتواسےاتنی بارنوکری سےنکالاجاچکاہےکہ ہرنیاآنےوالاجب تک کام سیکھتاہے،اس کی بھی چھٹی کردی جاتی ہے۔
یوں پاکستان کی وہ گاڑی جو1947میں ہندوستان سےنکلی تھی آج بھی اسی نازک موڑپرکھڑی ہے۔ کبھی کبھی تومجھےلگتاہےکہ قصورکسی اورکانہیں خودگاڑی کاہےکہ جسےنازک موڑسےاتناپیارہوگیاہےکہ وہ آگےبڑھنےپرتیارہی نہیں اوربہانےبہانےسےیہیں کھڑی ہوئی ہے۔
کچھ لوگوں کامانناہےکہ گاڑی نازک موڑسےآگےنہیں بڑھ رہی تواسےواپس موڑیں اورپھرریورس گئیرلگاکرآگےبڑھانےکی کوشش کریں،شایداس طرح کام بن جائے۔ یہ تھوڑامشکل ہےلیکن کہتےہیں گھی سیدھی انگلی سےنہ نکلےتوانگلی کوٹیڑھاکرلیں۔ ممکن ہےبرسوں سےنازک موڑپرپھنسی پاکستان کی گاڑی اس طرح آگےبڑھنےمیں کامیاب ہوجائے۔
کچھ سرپھرےتواس نازک موڑسےاس قدرتنگ آچکےہیں کہ ہاتھ میں کدالیں لیکربےچینی اورشدت سےاسےڈھونڈرہےہیں ۔ کہتےہیں جہاں بھی یہ سالانازک موڑمل گیا،مارمارکراس کاوہ خم ہی نکال دیں کہ جس نےستربرس سےپاکستان کوکباکررکھاہے۔