دوستو،وقت کےساتھ ساتھ جہاں اوربہت کچھ سائنسی ہوتاجارہاہے،وہاں محبت بھی سائنس کےآگےبےبس دکھائی دیتی ہے۔
وہ محبت جوکبھی ایک چھت سےدوسری چھت کےدرمیان محض اشاریوں کنایوں کی زبان میں سب کچھ سمجھ لیتی تھی ، آج ایک چھوٹےسےموبائل فون کےبغیرکچھ بھی نہیں ۔
موبائل فون ہماری زندگیوں کےاندرکس حدتک گھس چکاہے،اسےناپنےکاکوئی پیمانہ تونہیں البتہ چند دنوں کیلئے موبائل فون بندکردئیےجائیں تو ممکن ہےٹک ٹاک کی دلدادہ نوجوان نسل کوغشی کےدورےپڑنےلگیں۔
کچھ روزپہلےمیں کہیں سےگزررہاتھاتومیری نظرایک گاڑی پرپڑی۔ کیادیکھتاہوں کہ گاڑی کی پچھلی نشست پرتین نوجوان لڑکیاں بیٹھی ہیں ،قابل غوربات یہ تھی کہ تینوں ایک دوسرےسےبات کرنےکی بجائے اپنےاپنےموبائل فونزمیں مگن تھیں۔
یہ موبائل فون کی طاقت نہیں بلکہ ہماری کمزوری ہےجس نےہمیں ایک چھوٹی سی مشین کامحتاج بناکررکھ دیاہے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہےکہ ہم نےجیتےجاگتےرشتوں کونظراندازکرکےسارےرشتےموبائل فون سےجوڑلئےہیں۔یہ کہناغلط نہ ہوگاکہ موبائل فون نےہمیں بھیڑمیں بھی اکیلاکردیاہے۔
سمارٹ فون اور سمارٹ واچ کےبعدکل کلاں کواگرسمارٹ جوتے،سمارٹ کپڑے،سمارٹ کیپ اورسمارٹ گوگلزبھی مارکیٹ میں عام بکنےلگےتواچھےبھلےگوشت پوست کےانسان روبوٹ لگنےلگیں گے۔ میری رائےمیں یہ انسانی ترقی کی معراج نہیں بلکہ اس کی بدترین شکل ہوگی ،جوانسانی بقاکوفناکےخطرےسےدوچارکردےگی۔