پاکستان اوربھارت کی فلم انڈسٹری میں ایک چیزقدرےمشترک ہےاوروہ یہ کہ دونوں کاماضی انتہائی تابناک تھا۔ دونوں میں فرق یہ ہےکہ بھارتی فلمی صنعت نےوقت کےساتھ ساتھ
خودکومزیدبہتربنایااورآج دنیابھرمیں بالی وڈاوراس کےستاروں کاایک نام ہے۔ جبکہ پاکستان فلم انڈسٹری کےساتھ بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس کی باگ ڈوروقت گزرنےکےساتھ ساتھ نان
پروفیشنلزکےہاتھ میں آگئی۔ نتیجہ ہم سب کےسامنےہے۔
پاکستانی فلمی صنعت جسےعرف عام میں لالی وڈبھی کہاجاتاہے،جب پروفیشنلزکےہاتھوں میں تھی توایسی ایسی شاہکارفلمیں بنیں کہ لوگ آج بھی ان فلموں اوران کےگیتوں
کویادکرتےہیں۔ لیکن آج کی اس ویڈیومیں میرامقصدان فلموں کویادکرنانہیں،بلکہ اس ویڈیومیں ہم پاکستان کی کچھ بہترین فلموں میں بولےگئےان ڈائیلاگزکویادکرینگےجوکئی سال
گزرنےکےباوجودآج بھی زبان زدعام ہیں۔
توچلئےشروع کرتےہیں سترکی دہائی کی مشہورپنجابی فلم مولاجٹ سے۔
مولاجٹ کامشہورڈائیلاگ جسےفلم کےہیروسلطان راہی کی ادائیگی نےاوربھی جانداربنادیا:
اوئےمولےنوں مولانہ مارےتےمولانئیں مردا
مولاجٹ فلم ہی کاایک اورایورگرین ڈائیلاگ جسےنوری نت یعنی مصطفیٰ قریشی نےاپنےمخصوص اندازسےامرکردیا:
نواں آیاں ایں سوہنیاں
محمدعلی مرحوم سترکی دہائی کی فلموں میں کامیابی کی ضمانت سمجھےجاتےتھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطافرمائے۔ان کی فلم کایک مشہورڈائیلاگ ایساہےکہ
جسےآج بھی یادکیاجاتاہےاورملک کےمعروف کامیڈیئنزاسےاپنےاپنےاندازمیں پیش کرتےرہےہیں:
محمدعلی عدالت کےکٹہرےمیں کھڑےہیں اورجج سےمخاطب ہوکرکہتےہیں:
جج صاحب مجھےمیری جوانی لوٹادو۔
محمدعلی صاحب ہی کاایک اورمشہورہواکرتاتھا:
ماں ماں میں نےبی اےپاس کرلیا۔
پاکستانی فلموں کی بات ہواورچاکلیٹی ہیرووحیدمرادکی بات نہ ہو،کیسےہوسکتاہے۔ وحیدمرادفلموں میں ایسےنوجوان کاکرداراداکرتےتھےجومحنتی اورایماندارہےاورجسےکچھ
کرکےاپنی محنت کش ماں کوایک اچھی زندگی دینی ہے۔
وحیدمرادکی فلمیں دیکھنےوالےاس سین کوکیسےبھول سکتےہیں جب وہ پھولی سانسوں کےساتھ گھرمیں داخل ہوتےاورسلائی مشین پرکام کرتی اپنی ماں کےگلےمیں بانہیں ڈال
کرکہتےہیں ۔۔ ماں ماں میں بی اےمیں پاس ہوگیاہوں۔
ماضی قریب کی فلم بول کاایک ڈائیلاگ بھی بہت مشہورہوا:
کھلانہیں سکتےتوپیداکیوں کرتےہو؟
اسی طرح بھارتی فلموں کےکچھ ڈائیلاگ ایسےہیں جواپنی فلموں سےزیادہ مشہورہیں اورلوگ آج بھی اپنےاپنےاندازسےاداکرکےلطف اٹھاتےہیں۔
شعلےفلم کاشہرہ آفاق ڈائیلاگ جسےفلم کےولن امجدخان نےاپنی بےمثال ادائیگی سےلازوال بنادیا:
کتنےآدمی تھے۔۔
شاہ رخ خان کی فلم ڈان کامشہورڈائیلاگ:
ڈان کوپکڑنامشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
امیتابھ بچن کی فلم شہنشاہ کایہ ڈائیلاگ آپ کوضروریادہوگا:
رشتےمیں توہم تمہارےباپ لگتےہیں،نام ہےشہنشاہ
سلمان خان کی فلم یہ ڈائیلاگ بھی لوگ مدتوں یادرکھیں گے:
مجھ پرایک احسان کرناکہ مجھ پرکوئی احسان نہ کرنا۔
فلم دامنی کامشہورڈائیلاگ جوسنی دیول کےاندازادائیگی سےاوربھی ہٹ ہوگیا؛
جج صاحب ،انصاف نہیں ملا،ملتی ہےتوصرف تاریخ
سلمان خان کی فلم وانٹڈکاڈائیلاگ ہے:
ایک بارجومیں نےکمٹمنٹ کرلی توپھرمیں خودکی بھی نہیں سنتا۔
سنیل شیٹی کی فلم کاایک ڈائیلاگ بہت مشہورہوا:
میں تمہیں بھول جاوں یہ ہونہیں سکتااورتم مجھےبھول جاویہ میں ہونےنہیں دوں گا
سنیل شیٹی کی ہی ایک اورفلم میں جب ولن کوپولیس گرفتارکرتی ہےتووہ ہیروکی طرف دیکھ کرمشہورڈائیلاگ بولتاہے:
ہماراملاٹ کادھندہ ہےلیکن ہماری دشمنی میں کوئی ملاوٹ نہیں ہوگی ، ایک دم پیوردشمنی
تودوستودیکھاآپ نےکچھ ڈائیلاگ فلم کےسالوں بعدبھی لوگوں کویادرہتےہیں اورمختلف مواقع پرہم انہیں اداکرکےانہیں لکھنےوالوں کوایک طرح سےخراج تحسین بھی پیش کرتےہیں۔ ایک بات یہاں قابل ذکرہےکہ آج ہم نےپاکستان کی جن فلموں کےڈائیلاگ کویادکیاوہ فلمیں ماضی کاحصہ ہیں،موجودہ دورکی کوئی فلم ایسی نہیں کہ جس کےڈائیلاگ زبان زدعام ہوئےہیں۔ صرف اسی ایک بات سےآپ ہماری فلمی صنعت کی زبوں حالی کااندازہ لگاسکتےہیں۔