جمعہ 27جون 2025 | نیوز میکرزویب ڈیسک
غزہ میں جاری خونریزی کو روکنے کے لیے ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے—اسرائیلی اور امریکی قیادت کے درمیان طے پایا ہے کہ آئندہ دو ہفتوں کے اندر جنگ بند کر دی جائے گی۔ لیکن اس پیش رفت کے ساتھ ہی ایک اہم سوال جنم لے رہا ہے: کیا یہ جنگ بندی فری کھاتےمیں ہورہی ہےکہ یافلسطینیوں کواس کی بھاری قیمت چکاناہوگی؟
اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے درمیان ہونے والی فون کال میں غزہ کی جنگ روکنے پر اتفاق ہوا ہے۔ اس گفتگو میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور اسرائیلی وزیر اسٹریٹجک امور رون ڈرمر بھی شامل تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ گفتگو امریکی حملے کے بعد کی گئی جس میں ایران کو نشانہ بنایا گیا تھا—یعنی مشرق وسطیٰ کا توازن مکمل طور پر بدلنے کی تیاری ہے۔
جنگ بندی کے بدلے میں کیا شرائط طے ہو رہی ہیں؟
- حماس کا خاتمہ:
معاہدے کے تحت، غزہ میں حماس کی حکومت کا مکمل خاتمہ کر کے اس کی قیادت کو جلاوطن کیا جائے گا۔ - عرب ممالک کی عبوری حکومت:
چار عرب ممالک—جن میں متحدہ عرب امارات اور مصر شامل ہیں—غزہ میں مشترکہ انتظام سنبھالیں گے۔ یہ عبوری بندوبست حماس کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرے گا۔ - یرغمالیوں کی رہائی:
حماس کی جانب سے قید کیے گئے تمام یرغمالیوں کی رہائی اس معاہدے کا اہم جزو ہو گی۔ - فلسطینیوں کی ہجرت:
رپورٹ کے مطابق، غزہ سے نکلنے کے خواہش مند فلسطینیوں کو نامعلوم ممالک میں بسایا جائے گا، گویا ایک نئی ’سیاسی ہجرت‘ کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ - فلسطینی اتھارٹی کو محدود کردار:
عرب ممالک اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ تعمیر نو میں وہ اس وقت تک شریک نہیں ہوں گے جب تک فلسطینی اتھارٹی کو غزہ میں کردار نہ دیا جائے۔ لیکن نیتن یاہو فلسطینی اتھارٹی کو کسی بھی قسم کی شمولیت سے واضح طور پر انکار کر چکے ہیں۔ - اسرائیلی خودمختاری کا اعتراف:
معاہدے کے ایک اور پہلو کے مطابق، امریکا مغربی کنارے کے کچھ علاقوں پر اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم کرے گا—یہ ایک دیرینہ اسرائیلی مطالبہ رہا ہے۔ - دو ریاستی حل کی مشروط حمایت:
اسرائیل بظاہر دو ریاستی حل کی حمایت کرے گا، لیکن اس شرط پر کہ فلسطینی اتھارٹی میں ‘اصلاحات’ کی جائیں۔ یہ مبہم شرط کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ - سعودی عرب و دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات:
سعودی عرب اور شام اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کریں گے، جس کے بعد دیگر عرب و مسلم ممالک بھی اسی راہ پر گامزن ہوں گے۔
تجزیہ:
اس مبینہ جنگ بندی معاہدے کو صرف ایک سادہ سا "جنگ کا خاتمہ” نہ سمجھا جائے۔ اس کے پیچھے سیاسی، جغرافیائی، اور اسٹریٹجک سودے بازی کا ایک گہرا جال ہے—جہاں حماس کو مٹانے، فلسطینیوں کو بے دخل کرنے، اور اسرائیلی خودمختاری کو وسعت دینے جیسے نکات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر جنگ رک بھی جائے، تو کیا یہ معاہدہ فلسطینی عوام کے لیے ایک نئے خواب کی ابتدا ہو گا یا ایک اور دلدل میں دھکیلنے والا سمجھوتہ؟