تاریخ: 22 جون 2025 | ادارہ: نیوز میکرز ڈیسک
امریکاکی جانب سےایران اسرائیل جنگ میں باقاعدہ شمولیت نےمشرق وسطیٰ کومزیدتباہی وبربادی کےدہانےپرلاکھڑاکیاہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ امریکا نے ایران کی تین بڑی جوہری تنصیبات پر کامیاب فضائی حملے کیے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے مطابق ان حملوں کا سب سے بڑا ہدف فردو کا حساس نیوکلیئر پلانٹ تھا، جسے "مکمل طور پر تباہ” کر دیا گیا ہے۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” پر اپنے پیغام میں کہا، "ہم نے ایران کے تین جوہری مراکز — فردو، نطنز اور اصفہان — پر کامیاب حملے مکمل کر لیے ہیں۔” انہوں نے اسے امریکا کی تاریخ کی "سب سے پیشہ ورانہ اور مؤثر فضائی کارروائی” قرار دیا۔
بمباری کی تفصیلات
امریکی میڈیا کے مطابق، حملے میں بی-2 اسٹیلتھ بمبار طیاروں نے چھ جدید ترین بنکر بسٹر بم فردو پر برسائے، جبکہ نطنز اور اصفہان کی تنصیبات کو آبدوزوں سے داغے گئے ٹوماہاک کروز میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔ مجموعی طور پر 30 میزائل فائر کیے گئے۔
امریکی صدر کے مطابق تمام طیارے بحفاظت واپس لوٹ چکے ہیں، اور امریکی افواج مکمل کامیابی کے ساتھ مشن سے باہر آ چکی ہیں۔
ایرانی ردعمل: "ہر امریکی ہدف بن چکا ہے”
ایرانی حکام نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ "خطے میں ہر امریکی شہری اور فوجی اب ہمارے نشانے پر ہے۔” ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق، صوبہ قُم کے کرائسس مینجمنٹ ترجمان نے فردو پر حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تنصیب کے ایک حصے کو نقصان پہنچا ہے۔
ایران کے نائب سیاسی ڈائریکٹر حسن آبادی نے دعویٰ کیا ہے کہ "حملے سے قبل ہی تینوں تنصیبات خالی کرا لی گئی تھیں، اس لیے جانی نقصان نہیں ہوا۔”
ایران کی جوابی کارروائی: تل ابیب پر میزائل حملہ
جوابی اقدام کے طور پر ایران نے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب اور بیت المقدس پر میزائل داغے، جس سے شہر زلزلہ نما دھماکوں سے گونج اٹھے۔ رائٹرز اور الجزیرہ کے مطابق، اسرائیلی افواج نے دو ایرانی ڈرونز کو سرحدی علاقے میں مار گرایا ہے۔
اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ردعمل
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے امریکا کے اس اقدام کو "تنازع کی خطرناک شدت” قرار دیا اور کہا کہ "یہ بحران قابو سے باہر ہو سکتا ہے۔” ایران نے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
IAEA: تابکاری کی سطح معمول کے مطابق ہے
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) نے تصدیق کی ہے کہ حملوں کے باوجود ایران میں تابکاری کی سطح معمول کے مطابق ہے۔ ایران کی جوہری توانائی تنظیم کے مطابق حفاظتی اقدامات پہلے ہی نافذ کیے جا چکے تھے۔
عالمی تقسیم: برطانیہ کی حمایت، لاطینی ممالک کی مذمت
برطانوی وزیر اعظم نے حملے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ "ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔” اس کے برعکس، کیوبا، وینزویلا، چلی اور میکسیکو نے امریکا کے اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔
آسٹریلیا و نیوزی لینڈ کا محتاط موقف
دونوں ممالک نے کشیدگی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے سفارتی حل کی حمایت کی ہے۔ نیوزی لینڈ نے کہا کہ "سفارتی مذاکرات ہی واحد پائیدار راستہ ہیں، نہ کہ فوجی کارروائیاں۔”
تجزیہ:
یہ حملہ نہ صرف ایران-امریکا تعلقات میں ایک نیا موڑ ہے، بلکہ عالمی سفارت کاری اور امن کوششوں کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج ہے۔ امریکا اور اسرائیل کا اتحاد خطے میں ایک نئی محاذ آرائی کو جنم دے سکتا ہے، جبکہ ایران کا ردعمل عالمی سلامتی کو مزید غیر مستحکم کر سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ عالمی برادری اس بحران کو روکنے کے لیے کیا کردار ادا کرے گی، یا ایک نیا تباہ کن باب لکھا جائے گا؟ وقت، فیصلوں کا گواہ بنے گا۔