ویب ڈیسک ۔۔ آئی ایم ایف پروگرام کوبحال کروانے،درپیش معاشی مشکلات پرقابوپانےاورمعیشت کواس کےپاوں پرکھڑاکرنےکیلئےاتحادی حکومت سرتوڑکوشش میں مصروف ہےاوراسی سلسلےمیں یہ فیصلہ کیاگیاہےکہ مالی سال2022-23 میں تقریباً 300 ارب روپےکااضافی ریونیوجمع کرنےکیلئےنئےٹیکس اقدامات متعارف کرائےجائیں گے۔ فیڈرل بورڈآف ریونیو(ایف بی آر) کواس حوالےسےہم ورک مکمل کرنےکی ہدایات دی جاچکی ہیں۔
ڈان میں شائع ہونےوالی رپورٹ کےمطابق نئےٹیکس اقدامات میں لگثری انکم ٹیکس کی تجویزبھی شامل ہے۔ اگراس ٹیکس کورئیل اسٹیٹ پرلگانےکی منظوری دی گئی تویہ ویلتھ ٹیکس ہی کی ایک شکل ہوگی ۔ لگثری انکم ٹیکس میں پوش علاقوں میں بڑےگھر،لگثری گاڑیوں کےمالکان کوشامل کیاجائےگا۔
وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے وسیع تر ہدایات براہ راست ٹیکس لگانےکی ہیں، خاص طور پرمتمول طبقے کی آمدنی پر ٹیکس لگانا۔ اس تجویز میں کرایہ کی آمدنی پرمؤثر طریقے سے ٹیکس لگانا بھی شامل ہے۔ بجٹ دستاویزات میں لگثری ٹیکس کا کوئی عنوان نہیں ہوگا، لیکن مقصدامیر لوگوں پر ٹیکس لگاناہے۔ ذرائع کےمطابق حکومت ان شعبوں یا مصنوعات پر ٹیکس لگانے سے گریز کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جو غریب لوگوں کو متاثر کرسکتےہیں۔
وزارت خزانہ کےسینئر اہلکارکاحوالہ دیتےہوئےاخبارنےلکھاہےکہ نئےٹیکس اقدامات صرف 300 ارب روپے کے لگ بھگ ہوں گے جوہماری کل جی ڈی پی کامحض 0.4 فیصد بنتےہیں ۔
ایف بی آرپرتاجروں کوہراساں کرنےکاالزام
ذرائع کےمطابق چونکہ رئیل اسٹیٹ اورکنسٹرکشن سیکٹرنےگزشتہ دورحکومت میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم اورپراپرٹی کی قیمتوں میں بوم کےباعث اربوں روپےکمائے،اس لئےیہ شعبےخاص طورپرایف بی آرکےراڈارپرہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ لگثری گھرکی مد میں آنےوالےمکان کا مجوزہ سائز یا تو 1,000 یا 1,500 مربع گز سے زیادہ ہوگا،تاہم اس حوالےسےحتمی فیصلہ کابینہ ہی کرےگی ۔ اسی طرح لگژری گاڑیوں کے انجن کی گنجائش (سی سی) کا بھی اگلی میٹنگ میں فیصلہ کیا جائے گا۔ ذرائع کےمطابق لگژری ٹیکس کے دائرے میں مزید اشیاء پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور تجویزبھی زیرغورہے کہ جائیدادوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ انہیں مارکیٹ ریٹ کے برابر لایا جا سکے۔ ایک اور تجویز یہ ہے کہ رئیل اسٹیٹ سوسائٹیز کے لیے خریداروں سےریئل ٹائم ودہولڈ ٹیکس جمع کروانا لازمی قراردیاجائے۔
کارفنانسنگ: قرضوں کی مدت میں کمی کافیصلہ
ایک اورکام یہ ہورہاہےکہ محکمہ کسٹمزاوروزارت تجارت درآمدی بل کوکم کرنےکیلئےنئی لگژری آئٹمز کی نشاندہی پربھی کام کر رہے ہیں جنہیں ممنوعہ اشیاء کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ تجویز ابتدائی مرحلے میں ہےاوراسے اعلیٰ حکام کی منظوری درکارہو گی۔