عمران خان کی سیاست کومات دینےکیلئےپہلےاسےسمجھناضروری ہے اورمجھےنہیں لگتاکہ مسلم لیگ ن نےایساکرناضروری سمجھاہے۔ اس سےبھی آگےمجھےتویہ بھی لگتاہےکہ شایدمسلم لیگ ن کےجغادریوں کواس بات کاادراک ہی نہیں کہ عمران خان کوسیاسی میدان میں ہرانےکیلئےپہلےاس کےمائندسیٹ کوسمجھناچاہیے۔
دیکھیں ۔۔ عمران خان پہلےایک بیانیہ بناتےہیں اورپھرشدت سےاوربارباراس کی تکرارکرتےرہتےہیں اوراس توتکارمیں انہیں ملک کےنامورصحافیوں ، بڑےبڑےاینکرز،ایک بڑےٹی وی چینل اوردرجنوں پیڈیوٹیوبرزاورہزاروں کی تعدادمیں سوشل میڈیاٹرولزکی حمایت برابرحاصل ہوتی ہے۔ وہ جس بات کااورجس شخص کاچاہتےہیں ٹرینڈبنواتےہیں جوہفتوں ٹویٹرپرٹاپ ٹرینڈرہتاہے۔ سوشل میڈیاکی سائنس کوسمجھنےوالےجانتےہیں کہ کسی ٹرینڈکوغائب ہونےسےبچانےکاصرف ایک ہی طریقہ ہےکہ اس پرروزانہ ہزاروں کی تعدادمیں ٹویٹس کی جائیں ۔
اسی حکمت عملی کےذریعےعمران خان اپنےبیانئےکےغبارےمیں اس قدرہوابھردیتےہیں کہ ایک معمولی، غیراہم اورچھوٹی بات بھی بہت بڑی دکھائی دیتی ہے۔ یہ بات بہرحال عمران خان کےبدترین مخالفین کوبھی مانناپڑےگی کہ انہوں نےپاکستانی سیاست کی حرکیات کوبدل کررکھ دیاہے۔
عمران خان کےسیاست میں آنےسےپہلےخالی خولی جلسےہوتےتھے،ان جلسوں میں پارٹی ترانوں ، گیتوں اورموبائل فون لائٹس سےرنگ تحریک انصاف نےبھرے۔
عمران خان سےپہلےاس ملک کانوجوان اورامیرطبقہ سیاست سےکوسوں دورتھالیکن عمران خان کی وجہ سےآج ملک کےنوجوانوں کی بڑی تعدادتمام سیاسی جماعتوں میں ہمیں متحرک نظرآتی ہے۔
عمران خان نےسیاست اورعوام میں مقبولیت کوسوشل میڈیاپرمقبولیت سےجوڑدیا۔ اس سےپہلےکسی جماعت کویہ خیال نہیں آیا۔ یہی وجہ ہےکہ جتنااچھاسوشل میڈیاکوعمران خان کی پارٹی مینج کرتی ہےکوئی دوسراشایدنہیں کرسکایایوں کہہ لیں کہ کسی نےاس بارےمیں سوچنااوراسےاہمیت دیناگواراہی نہیں کیا۔
عمران خان نےسیاست میں بیانیوں کومتعارف کرانےکی روایت ڈالی اوراپنےمخالفین کویہ سکھایاکہ آج کل کےدورمیں الیکشن جیتنےکیلئےکسی نہ کسی بیانئےکاہوناضروری ہے۔
کسی حدتک اس نقطےپرمسلم لیگ ن ہمیں دیگرپارٹیوں سےآگےدکھائی دیتی ہےکیونکہ نوازشریف کوجب نااہل قراردیاگیاتوانہوں نےایک زبردست اورمقبول نعرہ دیا: مجھےکیوں نکالا۔ اس کےبعدمسلم لیگ ن کاووٹ کوعزت دوکانعرہ بھی خاص وعام میں بہت پاپولرہوا۔
عمران خان نےایک طرح سےورچوئل سیاست کی بنیادڈالی ہے۔ ورچوئل اس چیزکوکہتےہیں کہ جوآپ ٹی وی ، لیپ ٹاپ ، موبائل یاکمپیوٹرسکرین پرتودکھائی دیتی ہےلیکن حقیقت میں اس کاکوئی وجودنہیں ہوتا۔
باربار،بہانےبہانےسےٹی وی آنا ، سوشل میڈیاپرویڈیوپیغام جاری کرنا،مشہوراورپارٹی کےوفاداریوٹیوبرزکےساتھ انٹرویوز۔ غرض عمران خان عوام کےسامنےآنےکاکوئی موقع ہاتھ سےجانےنہیں دیتے۔ یوں وہ متواتراپنی سوچ اوربیانیہ اپنےسپورٹرزکےدماغ میں انڈیلتےرہتےہیں۔ یوں ان کااپنےچاہنےوالوں سےرشتہ بغیرکسی وقفےکےاستواررہتاہے۔
تحریک انصاف اورمسلم لیگ ن کےدرمیان ایک اوربنیادی اوربہت اہم فرق یہ ہےکہ عمران خان کی ایک کال پران کےکارکن ،خواتین اوربچوں سمیت باہرنکل آتےہیں۔ کسی اورپارٹی خصوصاً ن لیگ اس خصوصیت سےعاری نظرآتی ہے۔ یہی وجہ ہےکہ نوازشریف سروسزہسپتال میں زندگی اورموت کی جنگ لڑرہےتھےلیکن باہرایک بندہ بھی نہیں ہوتاتھا۔
عمران خان بھلےغیرجانبدارصحافیوں سےدوربھاگتےہوں لیکن ان میں خوبی ہےکہ وہ اپنےپسندیدہ صحافیوں اوراینکرزسےباقاعدگی سےنشستیں رکھتےہیں،اپنی سوچ اورحکمت عملی ان سےشئیرکرتےہیں اوران سےبھی رائےلیتےہیں۔
یہ طریقہ اپنی سوچ دوسروں میں منتقل کرنےاوردوسروں سےسیکھنےکاموقع ملتاہے۔
اب اگرہم اوپربیان کی گئی تمام خوبیوں کومسلم لیگ ن میں تلاش کرنےکی کوشش کریں توبڑی حدتک مایوسی کاسامناکرناپڑےگا۔ ضمنی الیکشن کی ہارایک بڑاصدمہ ضرورہےلیکن یہاں سیاست کی حدختم نہیں ہوتی۔ اپنی غلطیوں سےسیکھیں ، نئی اورجارحانہ سیاسی حکمت عملی بنائیں، مایوسی اورصدمےکاشکاراپنےووٹرز،سپورٹرزکاحوصلہ بڑھائیں کیونکہ اگرآپ ہی منہ لٹکائےپھریں گےتوکارکن بےچارےکہاں جائیں گے۔
بہرحال ، اپناتجزیہ اورمحاسبہ کریں۔ آج ڈوبےہیں توکل ابھریں گےبھی۔ یقین رکھیں کہ عمران خان ایک جھوٹ ہے، ایک ورچوئل حقیقت ہےجودکھائی تودیتی ہےلیکن اصل میں ہوتی نہیں۔،