بالی وڈکےمسٹرپرفیکشنسٹ عامرخان کبھی کسی ایوارڈشومیں نہیں جاتے۔ اپنےوقت کی شاہکارفلمیں بنانےوالےاداکارکی جانب سےایوارڈشوزکاٹوٹل بائیکاٹ حیران کن بات ہے۔ کچھ عرصےتک تولوگوں کواس کی وجہ سمجھ ہی نہیں آئی ۔۔ پھرخودعامرخان نےاس رازسےپردہ اٹھاتےہوئےبتایاکہ ایوارڈشوزمیں ایوارڈزمیرٹ پرنہیں دئیےجاتے،اس لئےوہ ان شوز میں جاناضروری نہی سمجھتے۔
عامرخان کی بات میں کتنی سچائی ہےاورکتنی مبالغہ آرائی ۔۔ ؟ یہ کہناتوبہت مشکل ہےلیکن بات کرنےوالاچونکہ عامرخان ہے ، اس لئےدال میں کچھ توکالاہے۔
چلیں ہندوستان کوچھوڑیں۔۔
گزرےزمانوں کی بات ہےپاکستان میں پی ٹی وی ایوارڈزآیاکرتےتھے ۔۔ ان ایوارڈشوزمیں آج کل کی طرح ہاٹ اور سزلنگ اداکارائیں ہوتی تھیں، نہ دیسی بدیسی گانوں پربےڈھنگےڈانس ۔۔ منوں کےحساب سےمیک اپ ہوتاتھانہ بھڑکیلےلباس ۔۔ سادگی اوروقارہی ان ایوارڈشوزکاحسن ہوتاتھا ۔ اوپرسےکونٹینٹ اتناجاندارکہ لوگ شروع سےآخرتک ٹکٹکی باندھ کردیکھتےتھے۔
خالدعباس ڈارکامشہورپیروڈی سانگ ۔۔ میں نئیں کھیڈنا کوریادےنال ۔۔ ایسےہی ایک ایوارڈشومیں گایاگیاجوآج بھی لوگوں کویادہے۔
اس دورمیں ایوارڈزکی تقسیم پرکوئی انگلی نہیں اٹھاسکتاتھاکیونکہ اگرایک کیٹگری میں تین لوگ نامزدہوتےتھےتوتینوں کامعیارمعمولی فرق کےساتھ ایک جیساہی ہوتاتھا۔ پرفیشنلزم کادوردورہ تھا ، پاکستانی شوبزانڈسٹری میں اداکاروں ، مصنفوں ، ڈائریکٹروں اورکیمرہ مینوں سمیت ایک سےبڑھکرایک نام موجودتھا ۔ دنیاپاکستان کی فلموں اورڈراموں کودیکھ کران سےسیکھتی تھی ۔
یہ توتھاہماراشاندارماضی ۔۔ اب ذراحال کاقصہ بھی سن لیں ۔۔
کچھ روزپہلےہم ٹی ایوارڈزدیکھنےکاموقع ملا ۔۔ پورےشومیں سوائےگلیمر،ڈانس پرفارمنسزاورسستےقسم کےمزاح کےاورکچھ بھی نہیں تھا ۔ بس ایک کام نیاہواہےکہ ۔۔ بالی وڈکی نقل کرتےہوئےہم نےبھی اپنےایوارڈشوزبیرون ملک منعقدکرنےشروع کردئیےہیں۔
اچھی بات ہےآپ اپنی انڈسٹری کوپروموٹ کررہےہیں لیکن کیاپاکستان جیساملک ان اللےتللوں کوافورڈکرسکتاہے۔ کیاہی اچھاہوتاکہ آپ اس سال یہ ایوارڈشوکینیڈامیں نہ کرتے بلکہ وہ خطیررقم جوآپ نےاس شوکوآرگنائزکرنےپرلگائی ہے،وہ آپ سیلاب زدگان کودےکران کی دعائیں لیتے۔
چلیں اپنی اپنی توفیق کی بات ہے ، ایوارڈشوکی بات کریں تواس میں سوائےبےہنگم اچھل کوداورگلیمرکےاورکچھ نہیں تھا ۔ ہمارےفنکاروں اورشوآرگنائزرزنےبھارت کی کاپی کرنےمیں کوئی کسرنہیں چھوڑی ۔ مجھےکہنےدیجیئےکہ ہماری شوبزانڈسٹری بھارت سےاس قدرمتاثرہےکہ لباس ، چال ڈھال ، گفتگو کےساتھ ساتھ اب توپروگرام آرگنائزکرنےمیں بھی ان کی پوری پوری کاپی کرنےلگےہیں ۔
بیرون ملک ایوارڈشوزمنعقدکرنےکاٹرینڈبھارت نےہی متعارف کرایاتھاجسےبعدمیں ہم نےہوبہوکاپی کیا۔ شوزآرگنائزبھی بالکل اسی اندازمیں اسٹائل میں کیاجاتاہے،حتیٰ سکرپٹ میں بھارت کی نقل مارنےکی پوری پوری کوشش ہوتی ہے۔
بس ایک چیزہےکہ جس میں ہم ہمسایہ ملک کی کاپی کرنےکی کوشش توپوری کرتےہیں لیکن کرنہیں پاتے ۔۔ اوروہ ہےشوکےدوران ہونےوالی ڈانس پرفارمنسز ۔۔
اس شومیں ہانیہ عامراورفرحان سعیدکی ڈانس پرفارمنس کےچرچےسوشل میڈیاپرپہلےسےہی شروع ہوگئےتھے۔ خبریں آتی رہیں کہ ہانیہ عامرشومیں اپنی پرفارمنس کولیکرخاصی نروس رہیں ۔ شومیں ہانیہ عامرکی پرفارمنس کےدوران ان کی نروسنس نظربھی آئی ۔
وہ فرق جسےہم لاکھ کوشش کےباوجودختم نہیں کرپاتےوہ ہے ۔۔ پروفیشنلزم کافرق ۔ بھارتی شوبزانڈسٹری کام کولیکرہم سےبہت آگےہے۔ ان کےاداکاراوراداکارائیں ڈانس اوراداکاری کی تربیت لیکراس فیلڈمیں آتےہیں جبکہ ہمارےہاں ۔۔یہ کام فلموں اورڈراموں میں آنےکےبعدہوتاہے۔
کوئی کسی کابیٹاہے،کوئی کسی کی بیٹی ہے، کوئی کسی کی فیورٹ ہےتوکوئی کسی کی نورنظر ۔ کام چل رہاہے ۔۔ لوگوں کوساس بہو،عشق معشوقی اورگھریلوسیاست میں الجھایاہواہے ۔۔ بیرونی چینلزپرپابندی ہے ۔۔ فیورٹ ازم اپنےعروج پرہے ۔ جینوئن کام ہورہاہےنہ کوئی کرناچاہتاہے ۔۔
اس لئےمیرےپیارےپاکستانیو ۔۔ تمہاری قسمت میں یہی کاپی کیٹ ایوارڈشوزاور گھسی پٹی کہانیوں والےڈرامےہیں ۔ گزاراکرو ۔۔
لیکن وہ وقت دورنہیں جب مقابلےکی ایک آندھی دونمبری کےستونوں پرکھڑی ہماری نام نہادشوبزانڈسٹری کامحل تنکوں کی طرح اڑالےجائےگی،