ویب ڈیسک ۔۔ پنڈورا پیپرزنےپنڈوراباکس کھول دیا۔
جی ہاں ۔۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم آئی سی آئی جے تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی اسکینڈل پینڈورا پیپرزکو سامنے لے آئی۔ ان پیپرزکےمطابق دنیا بھر کے متعدد سربراہان مملکت، سیاست دانوں، صنعت کاروں، بیورو کریٹس، ریٹائرڈ افسران [ آف شورکمپنیوں کےمالک ہیں۔ جن افرادکی آف شورکمپنیاں نکلی ہیں ان میں 700 پاکستانی بھی شامل ہیں۔
پاکستان سےتعلق رکھنےوالےافراد میں شامل نمایاں ناموں میں وزیرخزانہ شوکت ترین،سینیٹرفیصل واوڈا،وفاقی وزیرمونس الٰہی، پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن،اسحاق ڈارکے بیٹے علی ڈار،خسرو بختیارکےبھائی عمر بختیار،راجہ نادر پرویز، سینئر وزیر عبدالعلیم خان، سابق معاون خصوصی وزیراعظم وقارمسعودکےبیٹےشامل ہیں۔
پنڈورایپرز کے مطابق ابراج گروپ کے سی ای او عارف نقوی، ایگزٹ کمپنی کے مالک شعیب شیخ سمیت متعدد بینکار،کاروباری افراداورکچھ میڈیامالکان بھی آف شورکمپنیوں کےمالک ہیں جن میں سماٹی وی کےمالک عبدالعلیم خان اورجیوٹی وی کےاونرمیرشکیل کانام لیاجارہاہے۔
حکومتی ارکان کی آف شور کمپنیاں
تبدیلی کا نعرہ لگانے والے وزیراعظم عمران خان کی اپنی کابینہ کے متعدد ارکان آف شور کمپنیوں کے مالک نکلے۔
شوکت ترین
پاکستان کے وزیر خارجہ شوکت ترین اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کی 4 آف شور کمپنیاں ہیں۔ ان کمپنیوں کی کاغذی کارروائی کرنے والے مالیاتی مشیر طارق فواد ملک کے مطابق یہ کمپنیاں ترین خاندان کی سعودی کاروبار سے آنے والی سرمایہ کاری کا ایک حصہ ہیں۔
شوکت ترین نے آئی سی آئی جے کی جانب سے بھیجے گئے سوال نامے کا جواب نہیں دیا۔ پینڈورا پیپرز کی اشاعت کے دن جاری ہونے وال بیان میں انہوں نے کہا کہ بیان کی گئی آف شور کمپنیاں مکمل قانونی میرے بینک کے لیے فنڈز جمع کرنے کے طریقہ کار کا حصہ ہیں۔
عمر بختیار
عمران خان کے وزیر صنعت مخدوم خسرو بختیار کے بھائی عمر بختیار 2018ء میں ایک آف شور کمپنی کے ذریعے اپنی بوڑھی والدہ کے نام لندن کے علاقے چیلسیا میں 1 ملین ڈالر کا اپارٹمنٹ خریدا۔ ریاستی اینٹی کرپشن ایجنسی بھی اس الزامات کی تفتیش کر رہی ہے کہ ان کے گھر والوں کی دولت میں اس دوران بے تحاشا اضافہ ہوا، جب وہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں پہلی بار وزیر بنے۔
فیصل واوڈا
وزیر اعظم عمران خان کےچہیتے سابق وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے 2012ء میں یو کے انویسٹمنٹ میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے آف شور کمپنی کی بنیاد رکھی۔ واوڈا نے آئی سی آئی جے کو بتایا کہ وہ پاکستانی ٹیکس حکام کو اپنے دنیا بھر میں موجود اثاثے ڈکلیئر کر چکے ہیں۔
ایک خبرکےمطابق جب صحافیوں نےان کی آف شورکمپنی کےحوالےسےرائےلینےکیلئےفیصل واوڈاکوفون کیاتوانہوں نےصحافیوں کےخلاف انتہائی گھٹیازبان استعمال کی اورسوالات کاجواب نہیں دیا۔
وقار مسعود خان
عمران خان کے 2019ء سے 2020ء تک چیف ایڈوائزر برائے فنانس اور ریونیو رہنے والے وقار مسعود خان کے بیٹے کی برٹش ورجینیا آئی لینڈز میں ایک کمپنی ہے۔ مسعود نے پالیسی کے تنازع پر اگست کے وسط میں استعفی دےدیا تھا۔ وقار خان نے آئی سی آئی جے کو بتایا کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کے بیٹے کی کمپنی کیا کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا اعتدال پسند زندگی گزارتا ہے اور مجھ پر انحصار نہیں کرتا۔
مونس الہی
پاکستان مسلم لیگ (ق) کے بانی چوہدری پرویز الہی کے بیٹے مونس الہی اس وقت عمران کے ایک اہم اتحادی اور وفاقی وزیر ہیں۔ ان کے خاندان کے خلاف ماضی میں بھی کئی اسکینڈلز بنتے رہے ہیں اوراس مرتبہ بھی مونس الہی کےنام آف شورکمپنی نکل آئی ہے۔
دستاویزات کے مطابق جنوری 2016ء میں مونس الہی جو اس وقت پنجاب کے قانون ساز تھے، انہوں نے آف شور اثاثوں کی منتظم اور مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی ایشیا سٹی ٹرسٹ کے حکام سے ملاقات کی۔ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ایشیا سٹی کے حکام کو بتایا کہ وہ 2007ء میں اپنی پھالیہ شوگر ملز کی زمین کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔
ابتدا میں ایشیا سٹی نے انہیں پولیٹیکلی ایکسپوزڈ پرسن ( پی ای پی) قرار دیتے ہوئے سرمایہ کاری کرنے سے منع کردیا۔ تاہم 15 فروری 2016ء میں ایشیا سٹی نے مونس الہی کو تھامسن رائٹرز رسک مینیجمنٹ کی رپورٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے بطور کلائنٹ منظور کرلیا۔ جس کے بعد مونس الہی نے ایشیا سٹی کے ساتھ 33 اعشاریہ 7 ملین ڈالر کا معاہدہ کیا اور اس رقم کو پھالیہ شوگر ملز کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم قرار دیا۔
چودھری خاندان نےاس حوالےسےاپناردعمل دیتےہوئےکہاہےکہ ان کاکسی آف شورکمپنی سےکوئی تعلق نہیں۔ کاغذات کواوپرنیچےکرکےان کےخلاف جھوٹ گھڑاگیا۔
کاروباری افراد
عارف نقوی
پاکستان تحریک انصاف کے سرفہرست ڈونر عارف نقوی جو امریکا میں فراڈ کے چارجز کا سامنا کر رہے ہیں وہ بھی متعدد آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔
دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2017ء میں ابراج گروپ کے سی ای او یوکے ہولڈنگ کے مالکانہ حقوق کو ڈوئچے بینک کی جانب سے آپریٹ ہونے والے آف شور ٹرسٹ کو منتقل کیے۔ تاہم ڈوئچے بینک نے آئی سی آئی جے کی جانب سے ٹرسٹ کے بینیفشریز کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کے جواب دینے سے منع کردیا۔
طارق شفیع
ریکارڈ کے مطابق ممتاز کاروباری فرد اور پاکستان تحریک انصاف کے ڈونر طارق شفیع بھی آف شور کمپنیوں کے ذریعے 215ملین ڈالر کے اثاثے رکھتے ہیں۔
سابق فوجی افسران اورانکےرشتہ دار
پنڈورا پیپرز میں متعدد سابق فوجی افسران کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف کے سابق ملٹری سیکرٹری لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ شفاعت اللہ شاہ کے نام بھی آف شور کمپنی نکلی ہے۔
انہوں نے آف شور کمپنی کے ذریعے لندن میں ایک مہنگا اپارٹمنٹ خرید رکھا ہے۔
اس کے علاوہ آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل برائے انسداد دہشت گردی میجر جنرل ریٹائرڈ نصرت نسیم کے نام بھی ایک آف شور کمپنی نکل آئی ہے۔
میجر جنرل ریٹائرڈ نصرت نسیم نے 2009 میں اپنی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد اپنے نام آف شور کمپنی رجسٹرڈ کرائی۔
لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ افضل مظفر کے بیٹے کے نام بھی ایک آف شور کمپنی نکلی ہے۔افضل مظفرپراسٹاک مارکیٹ میں 4 ارب 30 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کے الزام میں مقدمہ بھی چلا۔
لیفٹننٹ جنرل (ر) علی قلی خان کی بہن نے آف شور کمپنی کےذریعے برطانیہ میں جائیدادیں خریدیں۔ سابق ائیرچیف مارشل عباس خٹک کے دو بیٹوں کے نام بھی آف شور کمپنی نکلی ہے۔
اگر قانون کے مطابق آف شور کمپنی ڈکلیئر کی گئی ہو اور وہ کمپنی کسی غیرقانونی کام کیلئے استعمال نہ ہو تو آف شور کمپنی بنانا بذات خود کوئی غیرقانونی عمل نہیں ہے۔