**Date: 23 جون 2025 | By: NewsMakers Web Desk |
ترکیہ عام طور پر خود کو مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات میں غیر جانب دار ظاہر کرتا ہے، لیکن حالیہ انکشافات سے معلوم ہوتا ہے کہ اندرونِ خانہ وہ ایران کے جوہری پروگرام سے خائف ہے اور اس کے حل کے لیے خفیہ سفارتی کوششیں کر رہا ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر کی عدم دستیابی، اہم ملاقات منسوخ
مڈل ایسٹ آئی کے مطابق، ترک حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان ایک اہم ملاقات طے پا رہی تھی، جسے صدر رجب طیب اردوان میزبانی کرنا چاہتے تھے۔ تاہم، ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانب سے حتمی فیصلے کے لیے رابطہ نہ ہو پانے کے باعث یہ ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔
ترکیہ کا مصالحانہ کردار
ترک وزارتِ خارجہ نے اپنے حالیہ بیان میں ایک بار پھر اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے پیدا ہونے والا بحران صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ بیان میں کہا گیا:
"ترکیہ ذمہ داریاں نبھانے اور تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔”
اردوان کی دو رخی حکمتِ عملی
صدر اردوان اکثر خطے کے تنازعات میں سخت بیانات دیتے ہیں، لیکن عملی طور پر وہ متوازن پالیسی اپناتے ہیں تاکہ ترکیہ کو سفارتی و معاشی لحاظ سے فائدہ پہنچے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ترکیہ کی نیٹو رکنیت اور امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، جنہیں وہ اپنے اسٹریٹیجک مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔
ترکیہ کو لاحق حقیقی خطرات
ترک اسکالر یشلتاش کے مطابق، ترکیہ کا اسرائیل-ایران کشیدگی پر موقف وقتی سیاسی مفاد پر مبنی نہیں بلکہ اس کے پیچھے گہرے اسٹریٹیجک خدشات موجود ہیں۔ ان میں ملک کی جغرافیائی سلامتی، توانائی کی ترسیل، معاشی ترقی اور آبادی کا توازن شامل ہے۔
تجزیہ:
یہ خبر اس اہم نکتہ کی نشاندہی کرتی ہے جسے اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے — کہ ترکیہ بظاہر ایران کا اتحادی نظر آتا ہے، لیکن درپردہ وہ ایران کے جوہری عزائم سے پریشان ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ سفارتی چینلز کے ذریعے اس بحران کو حل کیا جائے تاکہ پورے خطے میں استحکام آئے اور ترکیہ خود کسی بڑی جنگ کی لپیٹ میں نہ آئے۔