تاریخ: 29 جون 2025 | تحریر: نیوز میکرز ڈیسک
معروف اداکارہ زارا نور عباس نے حال ہی میں ایک پنجابی ٹی وی شو میں دلچسپ انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ وہ پنجابی زبان روانی سے نہیں بول سکتیں — البتہ پنجابی گالیاں انہیں اچھی طرح آتی ہیں۔
پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ اس کی میزبانی خود زارا کی والدہ، سینئر اداکارہ اسما عباس نے کی، جو اپنی شستہ اور رواں پنجابی کے لیے جانی جاتی ہیں۔ اس دوران جب زارا کو پنجابی زبان میں کوئی مکمل جملہ بولنے کو کہا گیا، تو وہ بار بار اٹک گئیں اور بالآخر ہنستے ہوئے اعتراف کیا کہ ’’مجھے صرف پنجابی میں گالیاں دینا آتی ہیں۔‘‘
"شادی کے بعد نہیں، پہلے بھی پنجابی نہیں آتی تھی”
پروگرام کے دوران زارا نور عباس نے بتایا کہ ان کی شادی ایک اردو بولنے والے خاندان میں ہوئی ہے، جس کی وجہ سے انہیں پنجابی زبان سیکھنے کا زیادہ موقع نہیں ملا۔ تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا شادی سے پہلے، جب وہ اپنے پنجابی خاندان کے ساتھ رہتی تھیں، تب بھی انہیں پنجابی بولنے میں مشکل ہوتی تھی؟ تو انہوں نے صاف کہا کہ وہ پہلے بھی روانی سے پنجابی نہیں بول سکتی تھیں۔
سوشل میڈیا پر شدید ردعمل: "یہ شرمندگی نہیں، شرم کی بات ہے!”
زارا کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہو گیا۔ کئی صارفین نے ان کے لہجے اور پنجابی زبان سے لاتعلقی پر سخت تنقید کی۔
ایک صارف نے لکھا:
’’یہ پنجابیوں کو اپنی ہی زبان سے ایسا کیا کمپلیکس ہے؟‘‘
ایک اور صارف نے تبصرہ کیا:
’’میرے بچے یوکے میں پیدا ہوئے ہیں، پھر بھی روانی سے اردو، انگلش اور پنجابی بولتے ہیں۔ ان کی ٹیچر خوش ہوتی ہے کہ بچہ تین زبانیں جانتا ہے۔‘‘
زارا پر طنز کرتے ہوئے ایک صارف نے سخت الفاظ میں لکھا:
’’یہ کوئی فخر کی بات نہیں بلکہ شرم آنی چاہیے۔ ساری زندگی پنجاب میں گزار کر بھی پنجابی نہ آنا، احساسِ کمتری کی نشانی ہے۔‘‘
سوال یہ ہے: زبان صرف بولنے کا ذریعہ ہے یا شناخت کا فخر؟
زارا نور عباس کے اس بیان نے ایک وسیع تر سوال کو جنم دیا ہے — کیا اپنی زبان سے ناواقفیت محض ایک ذاتی کمی ہے یا یہ سماجی سطح پر ہمارے رویوں کی عکاسی کرتی ہے؟
جب شناخت اور ثقافت کا سوال ہو، تو زبان محض الفاظ نہیں رہتی — وہ ورثہ، پہچان اور فخر کا استعارہ بن جاتی ہے۔