ویب ڈیسک ۔۔ وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا پر جھوٹی اور من گھڑت خبروں کی روک تھام کے لیے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 میں مزید ترمیم کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس حوالے سے ابتدائی مسودہ تیار کرلیا گیا ہے جو سوشل میڈیا پر غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے اور ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کئی اہم نکات پر مشتمل ہے۔
فیک نیوز کے لیے سخت سزائیں
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق، مجوزہ ترمیم کے تحت کسی بھی فرد یا ملکی ادارے کے خلاف جھوٹی خبر پھیلانے والے کو تین سال قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔
سوشل میڈیا پر حکومتی کنٹرول میں اضافہ
مسودے میں حکومت کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بلاک یا حذف کرنے کا اختیار دینے کی تجویز بھی شامل ہے۔ مزید برآں، اس قانون کا اطلاق سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ مین اسٹریم ٹی وی چینلز پر بھی ممکن ہوگا۔
ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن ایجنسی کا قیام
ترمیم شدہ پیکا قانون کے تحت ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن ایجنسی (ڈی آر پی اے) کے قیام کی منظوری دی گئی ہے۔ یہ ایجنسی شکایات کے اندراج اور ان کے ازالے کے عمل کو منظم کرے گی۔ تجویز کردہ ترامیم میں شکایت کنندہ کے حقوق اور مواد کی نوعیت کو جانچنے کے لیے ایک مربوط نظام متعارف کرانے کی بات کی گئی ہے تاکہ صرف متاثرہ افراد ہی شکایات درج کرا سکیں۔
قانون سازی پر تنقید اور شفافیت کی یقین دہانی
پارلیمانی کمیٹی کے ارکان نے اعتراف کیا کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقریر، بچوں کے ساتھ بدسلوکی، ہراساں کرنے، اور ریاست مخالف سرگرمیوں کو روکنا ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قانون سازی کا غلط استعمال نہ ہو اور کسی کو بلا جواز اختیارات نہ دیے جائیں۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو قانون اور اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہوگا تاکہ جعلی خبروں اور غیر اخلاقی مواد کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔
عمل درآمد کا طریقہ کار
ترمیمی مسودےکومتعلقہ وزارتوں اور اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بعد حتمی شکل دی جائے گا تاکہ توازن اور شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ مجوزہ قانون کا مقصد آزادی اظہار کا احترام کرتے ہوئے معاشرتی تحفظ اور ریاستی استحکام کو یقینی بنانا ہے۔