ویب ڈیسک | نیوز میکرز
سی این این نےامریکی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کی ایک رپورٹ کاحوالہ دیتےہوئےیہ خبردی ہےکہ امریکی حملوں کےباوجود ایران کے جوہری پروگرام کے اہم حصے بدستور محفوظ ہیں۔ سی این این کےمطابق امریکی حملےسےبس اتنافرق پڑاہےکہ ایران اپنےجوہری مقاصدکی تکمیل سےچندماہ پیچھےچلاگیا۔
سی این این کی یہ رپورٹ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کی یکسرنفی ہےجس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکی فضائی حملوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو”مکمل طورپرتباہ”کردیاہے۔ وائٹ ہاؤس نے فورڈو، اصفہان اور نطنز میں ایران کے یورینیم افزودگی کےمراکزپربمباری کوایک غیر معمولی عسکری کامیابی قراردیا۔
اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف ایال زمیر نے بھی منگل کو کہا کہ ان حملوں نے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو "سالوں پیچھے دھکیل دیا ہے”، تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ایران کے ساتھ جاری کشیدگی "ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے”۔
مگر خفیہ رپورٹس کے افشا شدہ مندرجات کچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔
محکمہ دفاع کے ایک ذریعے کے مطابق، ایران کے سینٹری فیوجز بڑی حد تک "محفوظ” ہیں۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) نے اطلاع دی ہے کہ جنگ کے صرف پانچ دنوں میں ایران کے 409 کلوگرام اعلیٰ افزودہ یورینیم کہیں کھوگیا، جو اگر ہتھیار سازی کے لیے استعمال ہو تو تقریباً 10جوہری بم بنانے کے لیے کافی ہے۔ یہ مقدار با آسانی ایک ٹرک میں منتقل کی جا سکتی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیوٹ نے سی این این کی رپورٹ پراپنےردعمل میں انٹیلی جنس رپورٹ کے دعوے کو "غلط اور گمراہ کن” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ "ٹاپ سیکرٹ” تھی جسے کسی "کم درجے کے انٹیلی جنس اہلکار” نے لیک کیا۔
ادھر ایک عرب عہدیدار نے مڈل ایسٹ آئی کو بتایا کہ ایران کو امریکی حملوں کی پیشگی اطلاع تھی۔ امواج میڈیا بھی اس بات کی تصدیق کر چکا ہے کہ تہران کو پیشگی انتباہ دیا گیا۔
اسرائیل کے حملے سے پہلے ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری پروگرام پر مذاکرات جاری تھے، جن کا مقصد پابندیوں میں نرمی کے بدلے ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنا تھا۔
منگل کے روز ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور اماراتی صدر محمد بن زاید سے رابطہ کیا۔ انہوں نے اماراتی صدر سے کہا کہ "امریکہ سے بات چیت میں یہ واضح کریں کہ اسلامی جمہوریہ ایران صرف اپنے جائز حقوق کا دفاع کر رہا ہے”۔
ایرانی صدر نے دوٹوک انداز میں کہا:
"ایران نے کبھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی، نہ کرے گا۔ ہم مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے تیار ہیں۔”
تاہم امریکی اور اسرائیلی حملوں نے سفارتی عمل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
اسی دن ایران کی پارلیمان کی قومی سلامتی و خارجہ امور کمیٹی کے رکن علاء الدین بروجردی نے تجویز دی کہ ایران کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ تعاون معطل کر دینا چاہیے۔
واضح رہےکہ ایرانی پارلیمانی پارلیمنٹ نےآئی اےای سےتعاون ختم کرنےکی قرارداداتفاق رائےسےمنظورکرلی۔