ویب ڈیسک ۔۔ پاکستان کی معاشی حالت آٹو سیکٹر کو بدستورمتاثرکررہی ہے کیونکہ جولائی 2023 میں بینکوں کی کار فنانسنگ کا تناسب 13ویں بار پھرنیچے چلاگیا،جس کی بنیادی وجہ شرح سود میں اضافہ بتایاجاتاہے۔
ڈان میں شائع ایک رپورٹ کےمطابق کارلون کی کل رقم جوجون میں293.7ارب روپےتھی،اب کم ہو کر285.2 ارب روپےہوگئی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، جون 2022میں آٹو فنانسنگ 368 ارب روپےکی بلندترین سطح پرتھی اوراس کے بعد سے سود کی شرح میں اضافے کی وجہ سے اس میں کمی آتی گئی۔ پاکستان میں اس وقت شرح سود 22 فیصد ہے۔ گاڑیوں کی فروخت میں کمی کی دیگر وجوہات میں قیمتوں میں اضافہ بھی ایک بڑی وجہ کےطورپرشامل ہے۔
مرکزی بینک کی جانب سےادائیگی کی مدت میں کمی اورگاڑیوں کے قرض کی حد کو بڑھاکر3 ملین کرنےسےبھی مقامی اسمبلرزکی فروخت کو نقصان پہنچایا۔
آٹو ماہرین کے مطابق روپے کی قدر میں کمی سےمارکیٹ میں مختلف قیاس آرائیاں جنم لیتی ہیں کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گاڑیوں کی قیمتوں میں مزید اضافے سے شرح سودبڑھے گی یابرقراررہے گی۔
یہ پیشین گوئیاں بھی زیرگردش ہیں کہ آٹو سیکٹر دسمبر تک بحران کا شکار رہے گا۔ شرح سود یا قیمتوں میں بڑی کمی کے کوئی آثار نہیں۔ 2024 کے دوران بھی فروخت کی صورتحال تشویشناک رہ سکتی ہے۔
انڈس موٹر کمپنی (آئی ایم سی) کے سی ای او علی اصغر جمالی کا کہنا ہے کہ آٹو انڈسٹری کو اب تک کی بدترین معاشی بدحالی کا سامنا ہے۔
یادرہےکہ 2023کےدوران سی کےڈی کٹ کی درآمد پرپابندیوں،روپےکی قدرمیں مسلسل گراوٹ اورقیمتوں میں ہوشربااضافےکےباعث گاڑیوں کی فروخت میں نمایاں کمی کےباعث بہت بارمقامی اسمبلرزپلانٹ بندکرچکےہیں۔