تاریخ: 30 جون 2025 | نیوز میکرز ویب ڈیسک
یکم جولائی 2025 کا سورج پاکستانی موٹر سائیکل صارفین کے لیے ایک نئی مہنگائی کی نوید لے کر طلوع ہوگا۔ پاکستان کی معروف موٹر سائیکل ساز کمپنی ہونڈا اٹلس لمیٹڈ نے اپنے تمام ماڈلز کی قیمتوں میں 2,000 سے 6,000 روپے تک اضافہ کر دیا ہے — اور یہ سب کچھ ہوا ہے نئے وفاقی بجٹ میں عائد کیے گئے ٹیکسز کی بدولت۔
قیمت بڑھی کیوں؟
ڈیلرز کے مطابق، قیمتوں میں اس حالیہ اضافے کی بڑی وجہ حکومت کی جانب سے موٹر سائیکل انجن کی درآمد پر 1 فیصد کاربن لیوی کا نفاذ ہے۔ ایسوسی ایشن آف پاکستان موٹر سائیکل اسمبلرز (اے پی ایم اے) کے چیئرمین محمد صابر شیخ نے بھی اس اضافے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ براہِ راست ٹیکس بوجھ کا نتیجہ ہے۔
کون سا ماڈل اب کتنے کا؟
ماڈل | پرانی قیمت | نئی قیمت | اضافہ |
---|---|---|---|
CD-70 | 157,900 | 159,900 | 2,000 |
CD-70 Dream | 168,900 | 170,900 | 2,000 |
Pridor | 208,900 | 211,900 | 3,000 |
CG-125 | 234,900 | 238,900 | 4,000 |
CG-125 Self | 282,900 | 286,900 | 4,000 |
CG-125s Gold | 292,900 | 296,900 | 4,000 |
CB-125F | 390,900 | 396,900 | 6,000 |
CB-150F | 493,900 | 499,900 | 6,000 |
CB-150F Special | 497,900 | 503,900 | 6,000 |
سب سے بڑا سوال: عوام کہاں جائے؟
یہ اضافہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عوام پہلے ہی مہنگائی، پٹرول کی بڑھتی قیمتوں اور بجلی کے بھاری بلوں سے پریشان ہے۔ کم آمدنی والے افراد کے لیے موٹر سائیکل نہ صرف آمدورفت کا ذریعہ ہے بلکہ روزگار کا بھی ایک اہم وسیلہ ہے۔ ہونڈا اٹلس کی مارکیٹ میں 50 فیصد سے زائد حصے داری ہے، اس لیے اس اضافے کا اثر پورے ملک میں محسوس کیا جائے گا۔
تجزیہ: یہ صرف قیمت نہیں، اعتماد کا بحران ہے
یہ قیمتیں صرف ہندسوں کا اضافہ نہیں — یہ اس اعتماد کا زوال ہے جو عوام کو حکومت اور صنعتی اداروں پر تھا۔ ہر بجٹ میں نئے ٹیکس، مہنگے دام، اور پھر کاربن لیوی جیسے اقدامات سے ایک سوال ابھر رہا ہے:
کیا عام آدمی کا جینا واقعی محال کر دیا گیا ہے؟
موٹر سائیکل آج بھی ایک "غریب کی سواری” سمجھی جاتی ہے، مگر اب لگتا ہے کہ یہ بھی متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں ایک طرف حکومت ماحولیاتی تحفظ کے نام پر نئے ٹیکسز لگا رہی ہے، وہیں دوسری جانب پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام آج بھی بہتری کاطلبگارہے۔
کیا حکومت نے متبادل پر غور کیا؟ کیا عوام کو کوئی ریلیف دیا گیا؟ یا صرف ٹیکس کے ہدف پورے کرنے کے لیے اُن پر بوجھ ڈال دیا گیا جن کے پاس پہلے ہی کچھ نہیں بچا؟
ایسے فیصلے اگرچہ ریاستی خزانے کے لیے وقتی فائدہ دے سکتے ہیں، لیکن اگر اس کے نتیجے میں عوام کا نظامِ زندگی بگڑ جائے، تو یہ فائدہ آخر کس کام کا؟