تاریخ: 23 مئی 2025 | مانیٹرنگ ڈیسک
حکومت نے موجودہ علاقائی کشیدگی کے پیش نظر آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ واحد شعبہ ہے جسے مالی کٹوتیوں سے استثنا حاصل ہوگا، جبکہ دیگر تمام شعبے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سخت شرائط کا سامنا کررہےہیں۔
جیونیوزکی خبرکے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات میں تنخواہ دار طبقے، جائیداد، مشروبات اور برآمدی شعبے کو ریلیف دینے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔ آئی ایم ایف نے واضح کر دیا ہے کہ ٹیکس وصولیوں کے اہداف صرف اس صورت میں تسلیم کیے جائیں گے جب حکومت اپنے اخراجات میں نمایاں کمی کرے۔
آئی ایم ایف کی ٹیم آج (جمعہ) کو اپنا دورہ مکمل کر رہی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف اور ان کی اقتصادی ٹیم نے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے ڈائریکٹر جہاد ازعور کی سربراہی میں آئی ایم ایف وفد سے ملاقات کی۔ وزیراعظم نے کھاد پر ایکسائز ڈیوٹی اور کیڑے مار ادویات پر مجوزہ نئے ٹیکس کے نفاذ کو مؤخر کرنے کی درخواست کی ہے، جس کی منظوری متوقع ہے۔
آئندہ مالیاتی بل کو قانونی شکل دینے سے قبل تمام شرائط آئی ایم ایف سے منظور کروائی جائیں گی تاکہ بجٹ کے وقت تنقید کا سامنا کم ہو۔ ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ اگلے چند برسوں میں محاصل ہی معیشت کی سمت متعین کریں گے۔
دوسری جانب، حکومت نے قرضوں کی ادائیگی میں کمی کے ذریعے اخراجات گھٹانے کا ایک اور راستہ تلاش کر لیا ہے۔ وزارتِ خزانہ اور آئی ایم ایف نے قرضوں کی ادائیگی کے لیے 8.7 کھرب روپے کا تخمینہ لگایا ہے، جسے کم کر کے 8 یا 8.2 کھرب روپے تک لایا جا سکتا ہے۔
آئی ایم ایف نے صوبوں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے اخراجات میں کمی لائیں اور آمدنی میں اضافہ کریں تاکہ مجموعی قومی خسارہ محدود رکھا جا سکے۔
مزید برآں، حکومت نے رواں مالی سال (جون 2025 تک) میں ایک ارب امریکی ڈالر کی تجارتی مالی معاونت کا انتظام بھی کر لیا ہے، جو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دے سکتا ہے۔